اسلام آباد: ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو ان کی سرزمین پر شکست دے کر پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم نے قوم کو جس خوشی سے ہمکنار کیا ہے، اس کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی سنائی دی جب ایک جج نے یہ کہہ کر ان کی تعریف کی کہ پاکستانی خواتین کسی سے پیچھے نہیں ہیں.
فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کی جانب سے گذشتہ برس خواتین افسران کی ترقی کے حق میں دیئے گئے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا، 'پاکستانی خواتین کسی سے پیچھے نہیں'.
عدالت عظمیٰ نے وفاق کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) میں 2002 سے 2004 کے دوران تعینات کی گئی 9 خواتین اسسٹنٹ سب انسپکٹرز (اے ایس آئی) کی ترقی کا حکم دے دیا.
عدالت میں خواتین افسران کی نمائندگی ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کی.
سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ویمن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے گروپ بی میچ میں ہندوستان کو اُس کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے والی پاکستانی ٹیم کا حوالہ دیا.
معزز جج کا کہنا تھا، 'اگرچہ ہمارے مردوں کی کرکٹ ٹیم، ایڈن گارڈنز میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میچ میں ہندوستانی ٹیم سے ہار گئی، لیکن ہماری خواتین کی ٹیم نے اپنے ہم منصب مردوں سے آگے بڑھ کر میچ جیت لیا'.
جسٹس عظمت سعید نے کہا، 'خواتین دوسرے درجے کی شہری نہیں ہیں، بلکہ وہ مردوں کے برابر ہیں اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اُن کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کرکٹ ٹیم نے ہندوستان میں ملک کا نام روشن کیا ہے.
وفاقی حکومت کی اپیلز مسترد کرتے ہوئے جسٹس سعید نے کہا کہ حکومت کو خواتین افسران سمیرا محمود، ذکیہ راشد، شومیہ سلیم، شازیہ صفدر، اسماء عباس، غلام بانو، نجمہ حفیظ، نازش اور تنزیلہ صفدر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیئے تھا.
واضح رہے کہ خواتین اسسٹنٹ سب انسپکٹرز (اے ایس آئی) کی بھرتی کے بعد حکومت نے 2004 سے 2005 کے دوران مردوں کو بھرتی کیا اور انھیں 2007 میں انسپکٹر یا سب انسپکٹر کے عہدوں پر ترقی دے دی گئی.
بعدازاں خواتین افسران نے ایف ایس ٹی سے رجوع کیا، جس نے قرار دیا کہ ان افسران کو بھی اُن کی تعیناتی کی تاریخ کے لحاظ سے سنیارٹی کی بنیاد پر اگلے درجوں پر ترقی دی جانی چاہیے.
ٹریبونل نے فیصلہ دیا تھا کہ خواتین افسران کو ان کے مرد ساتھیوں کے ساتھ برابر لانے کے لیے ترقی دی جانی چاہیے، جس پر وفاق نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا.
0 Comments: