Navigation Menu

New Zealand to keep trialling day-night first-class cricket


WELLINGTON: New Zealand Cricket appear to be pushing ahead with plans to trial day-night first-class matches as they build towards hosting their inaugural pink ball home Test against England in 2018.
NZC released their 2016/17 domestic fixture list on Tuesday and Wellington Regional Stadium, which has never hosted a first-class match and has been used solely for day-night limited-overs international cricket, is to host one of the Plunket Shield games scheduled to begin on March 6.
Auckland's Eden Park and Hamilton's Seddon Park, both of which have lights, will also host matches starting on March 6.
All three games have not had their start times confirmed, while every other Plunket Shield match in the 2016/17 season has a traditional start time of 10:30 am (2130 GMT).
Only one of the other venues scheduled to host first-class cricket this season, Napier's McLean Park, has lights. All of the Plunket Shield matches there are scheduled as day games.
NZC has said they hoped to play their first day-night Test match at home against England in 2018.
New Zealand played Australia in the inaugural day-night test in Adelaide last year and while the ball swung appreciably and batsmen said they found it difficult to see after twilight, administrators felt the interest generated had been sufficient to continue to explore the concept.
Next year's Plunket Shield matches should give NZC the opportunity to test the conditions likely to be faced by both sides in 2018, with the England tour pencilled in for mid-February to late March.
Eden Park has been designated the first Test on that tour, with the second at Christchurch's Hagley Oval, which does not have lights.
NZC had considered holding a round of first-class day-night matches earlier this year with an eye to playing one of their Tests against South Africa next March with the pink ball, but had to scrap the idea after McLean Park's lights were deemed not strong enough.

زمین پر ایک نئے ارضیاتی عہد کا آغاز


اگر تو آپ کا خیال ہے کہ ہماری زمین ارضیاتی طور پر اب بھی زمانہ قدیم جیسی ہے تو بالکل غلط، اب ہم بالکل مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔
جی ہاں انسانی اثرات کے باعث زمین ایک نئی ارضیاتی دور میں داخل ہوچکی ہے۔
انسانی اثرات زمین پر اتنے زیادہ مرتب ہوئے ہیں کہ ہم بالکل نئے ارضیاتی دور میں داخل ہوچکے ہیں جسے بشر مرکزی یا Anthropocene کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بات جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاﺅن میں انٹرنیشنل جیولوجیکل کانگیس میں اس ارضیاتی دور پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات میں سامنے آئی۔
سفارشات میں کہا گیا ہے کہ Anthropocene دور کا آغاز 1950 سے ہونا چاہئے جب انسانی ساختہ ترقی نے آخری برفانی دور کے بعد سے یعنی 12 ہزار سال سے چل رہے ارضیاتی عہد Holocene کو ختم کیا۔
بیسویں صدی کے وسط کے رجحانات جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج، سمندروں کی سطح میں اضافہ، مختلف نسلوں کا خاتمہ اور جنگلات کی کٹائی نے Holocene عہد کو ختم کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب نئے عہد کا تعین ارضیاتی طور پر جوہری بموں کی آزمائش، پلاسٹک کی آلودگی، کنکریٹ اور دیگر کریں گے۔
سائنسدانوں کے ورکنگ گروپ میں شامل لیسٹر یونیورسٹی کے ماہر ارضیات پروفیسر جان زیلاسیوکز نے بتایا ' اس نئے عہد کے زمین کے سسٹم پر مختلف اثرات مرتب ہوں گے ، جن کا ہم ابھی حصہ بھی بن رہے ہیں'۔
یہ ورکنگ گروپ اس نئے ارضیاتی عہد پر 2009 سے تحقیق کررہا ہے اور پروفیسر جان کا کہنا ہے ' اگر ہماری سفارشات کو تسلیم کیا گیا تو Anthropocene کا آغاز میری پیدائش سے کچھ پہلے ہوا تھا، ہم نے پوری زندگی اس عہد میں گزار دی اور اب ہمیں اس تبدیلی کے پیمانے اور ٹھہراﺅ کا احساس ہوا ہے'۔

لیپ ٹاپ تباہ کرنے والی یو ایس بی پسند کریں گے؟


کیا آپ کسی کمپیوٹر کو بے ضرر نظر آنے والی یو ایس بی ڈیوائس سے تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو اب یہ ڈیوائس فروخت کے لیے پیش کردی گئی ہے۔
اکتوبر 2015 میں 'یو ایس بی کِلر' نامی ڈیوائس کا نمونہ پیش کیا گیا تھا جو بجلی کی لہر کی مدد سے کسی بھی ڈیوائس کو جلا سکتی تھی، اُس وقت تو یہ صرف ایک تصور تھا مگر اب اسے حقیقت کی شکل دے دی گئی ہے۔
یو ایس بی کِلر ویب پیج کے مطابق 'یہ ایک آزمائشی ڈیوائس ہے جو ہر سیکیورٹی آڈیٹر اور ہارڈوئیر ڈیزائنر کے اسلحہ خانے میں ہونی چاہیئے'۔
یہ کمپنی 'یو ایس بی ٹیسٹ شیلڈ' بھی فروخت کررہی ہے جو 'یو ایس بی کلر' کے تباہ کن بجلی کے جھٹکے سے ڈیوائس کو بچانے کا کام کرتی ہے۔
ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ یو ایس بی لگائے جانے پر 95 فیصد ڈیوائسز کو تباہ کردیتی ہے اور یہ واضح نہیں کہ مذاق کے لیے اس کا استعمال کیسے روکا جائے گا۔
پہلے کہا جارہا تھا کہ اس یو ایس بی کو ایک روسی ہیکر ڈارک پرپل نے تیار کیا ہے مگر اب ویب سائٹ میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ اسے تیار کرنے والا کون ہے تاہم یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ اس کمپنی کا مرکز ہانگ کانگ ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سیکیورٹی مسائل کمپنیوں کو ہارڈوئیر کے بہتر تحفظ کے لیے تیار کریں گے۔
اور ہاں اگرچہ 95 فیصد ہارڈوئیر اس یو ایس بی کا شکار بن سکتے ہیں مگر ان میں ایپل شامل نہیں۔
اس کی قیمت 56 ڈالرز رکھی گئی ہے جبکہ ٹیسٹ شیلڈ 16 ڈالرز کی ہے۔

دپیکا کا باڈی گارڈ اچانک سے 'مشہور'


ممبئی: بولی وڈ سلیبرٹیز جب تقریبات، میڈیا ایونٹس یا ایوارڈز فنکشنز میں جاتی ہیں تو ان کی ٹیم کے اراکین یا باڈی گارڈز ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں، لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کسی سلیبرٹی کا باڈی گارڈ بھی خبروں کی زینت بن جائے۔
دپیکا پڈوکون کے باڈی گارڈ جلال بھی ایسے ہی ایک انسان ہیں، جو آج کل خبروں میں کافی 'اِن' ہیں۔
حال ہی میں دپیکا پڈوکون نے رکشا بندھن تہوار کے موقع پر اپنے باڈی گارڈ جلال کو راکھی باندھی۔
دپیکا نے اس حوالے سے انسٹاگرام پر ایک بومیرانگ (Boomerang) ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں وہ بظاہر جلال کو راکھی باندھتے ہوئے نظر آئیں، جس کے ساتھ انھوں نے 'تھینک یو جلال' کا کیپشن بھی دیا۔
واضح رہے کہ بومیرانگ ایپ کے ذریعے ویڈیو میں ایک ہی تصویر کو بغیر کسی وقفے کے آگے پیچھے حرکت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور مذکورہ ویڈیو میں بھی ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے دپیکا، جلال کو راکھی باندھ کر فوراً ہی اتار رہی ہیں، لیکن جو بھی ہو اس ویڈیو سے جلال 'مشہور' ضرور ہوگیا۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک  میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ دپیکا کی اس پوسٹ کے بعد جلال راتوں رات مشہور ہوگیا اور اس کے دوست احباب نے اسے فون کرکے اس حوالے سے مزید معلومات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق جلال کو سوشل میڈیا پر بھی مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور دپیکا کے فین کلب کے ممبرز اب جلال کو بھی فیس بک اور انسٹاگرام پر فالو کر رہے ہیں۔
دوسری جانب رپورٹس کے مطابق دپیکا کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ 'جلال دپیکا کے ساتھ کچھ عرصے سے کام کر رہاہے اور وہ اداکارہ کے اس عمل پر بہت ممنون ہے'۔
دپیکا پڈوکون کی ہولی وڈ ڈیبیو فلم ’ٹرپل ایکس‘ اگلے سال جنوری میں سنیما گھروں کی زینت بنے گی، جبکہ ان دنوں وہ سنجے لیلا بھنسالی کی آنے والی فلم ’پدماوتی‘ میں بھی کام کر رہی ہیں۔

Kareena Kapoor shows off her baby bump at Lakme Fashion Week 2016 Finale!


Bollywood actress Kareena Kapoor who is expecting her first child with Saif Ali Khan in December, turned showstopper for designer Sabyasachi Mukherjee for the Lakme Fashion Week (LFW) Winter/Festive 2016. The actress had the most “special” moment of her life as she walked the ramp flaunting her baby bump was dressed in a heavily embroided olive green lehenga and a kurti patterned choli with dupatta on her head, looking every inch like a regal bride. Her look was completed by a beautiful maang tika.


Kareena got emotional while talking to the media.“Everyone made this edition so special for me. For me, its quite an emotional moment as this was the first time we (she and her future child) took the ramp together. It was a moment to cherish,” the actress told reporters at the show conference after finale show. the actress told the reporters.


“I was happy and confident. Pregnant woman can walk and fly and for me it’s absolutely normal. When it comes to my work, acting is my passion and I will work till I die. As long as I am doing what I love, I am going to do that,” she added.

Bollywood actress Deepika Padukone attends the show to cheer for her favourite designer Sabyasachi Mukherjee. On the other hand, Kareena Kapoor, Shilpa Shetty, Ileana D’Cruz, Pooja Hegde, Radhika Apte, Sofie Choudhry, Bipasha Basu, Prachi Desai also walked the ramp.

جب سیاہ لباس جادوئی انداز سے سفید ہوگیا


زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام بحیرہ مردار سب سے نمکین پانی کا ذخیرہ بھی مانا جاتا ہے مگر اس کے پانی کے اندر کسی چیز کو کچھ دن کے لیے چھوڑ دیا جائے تو کیا ہوتا ہے؟
ایسا ہی ایک تجربہ ایک آرٹسٹ سگالیٹ لانڈاﺅ نے 2014 میں ایک سیاہ رنگ کا عروسی لباس دو ماہ کے لیے بحیرہ مردار میں ڈبو کر چھوڑ دیا۔
بحیرہ مردار میں جب اس پانی کو ڈبویا گیا تو یہ بالکل سیاہ تھا مگر دو ماہ بعد یہ جادوئی انداز میں بدل کر سفید ہوچکا تھا جس کی وجہ پانی میں موجود نمک کی بہت زیادہ مقدار تھی۔
ہوسکتا ہے آپ کو علم نہ ہو کہ بحیرہ مقدار کا پانی عام سمندر کے مقابلے میں دس گنا زیادہ نمکین ہوتا ہے اور اسی نے سیاہ لباس کو سفید بنا دیا تھا۔
اس لباس کو اب ' سالٹ برائیڈ' کا نام دیا گیا ہے اور اسے لندن کی مارل بروف گیلری میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سمندر کی کیمیا گری نے سادہ کپڑے کو بدل بدل کر رکھ دیا اور وہ اب بھی بحیرہ مردار کے جادو کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہی ہیں۔
آرٹسٹ نے اس سمندر میں جوتوں، جھنڈوں اور ایک وائلن کی رنگت کو تبدیل کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1900 کی دہائی کے شروع کے جس عروسی لباس بحیرہ مردار میں ڈبویا گیا اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں کوئی برح روح موجود ہے اور اسے موت اور پاگل پن کی علامت قرار دیا جاتا تھا۔

Popular Posts

Follow @ FOASNEWS